غزل
دُنیا کی محفل میں دل کا لگانا کیا
جہاں سے اُٹھنا ، وہاں گھر بنانا کیا
عقلِ ناقص شائد یقین کرلیں
عقلِ سلیم کو سبز باغ دکھانا کیا
جہاں اِک پل کی بھی اپنی خبر نہیں
وہاں صدیوں کے اسباب بنانا کیا
ہوش کے ناخُن لے میرے دوست
بدن میں لگی ہو تو دامن بچاناکیا
نظریں ہو جن کی منزلِ مقصود پر
ایسوں پہ دن رات کا آنا کیا
اللہ کی نصرت پہ جن کو ہو بھروسہ
کسی فرعون سے اُن کا دب جانا کیا
کوہساروں جیسا ہو جن کا حوصلہ
اُنہیں دھمکیوں سے دھمکانا کیا
جانا ہی ہے جن کو در جاناں پہ
اُنہیں اب پلٹ کے گھر جانا کیا
ڈنکے کی چوٹ پہ کہہ جو کہنا ہے
بیانِ حق میں دبنا شرمانا کیا
چاہئیے جب توجہ کا پھل امین
پھر بے رُخی کا پُودا لگانا کیا
Web Site
PRESENTED BY