یا یھا النبی قل لازواجک وبنتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلا بیبھن (33 : 59)
مجھے ہنسی آتی ہے اور رہ رہ کر تعجب بھی ہو رہا ہے کہ لوگ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ قرآن نہیں پڑھ رہا، اللہ جانے کیا پڑھ رہا ہے؟ اللہ کرے یقین آجائے کہ میں جو پڑھ رہا ہوں یہ قرآن ہی ہے، مجھے تعجب اس لئے ہو رہا ہے کہ اس امت نے قرآن کو ایسا چھوڑا، ایسا چھوڑا کہ جب میں قرآن کے احکام بتاتا ہوں تو انہیں یقین نہیں آرہا ہوتا کہ یہ قرآن ہی کے احکام ہیں، یہی سمجھتے ہوں گے کہ اللہ جانے یہ کیا پڑھ رہا ہے؟ سنئے !کیا حکم ہو رہا ہے : ''اے نبی ﷺ فرما دیجئے اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مؤمنین کی عورتوں سے کہ جہاں کبھی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر میں لپٹ کر نکلا کرو، اور چادر کو چہرہ پر لٹکا لیا کرو، تاکہ چہرہ پر کسی کی نظر نہ پڑے۔''
وقل للمؤمنت یغضضن من ابصر ھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او اباء بعولتھن او ابنا ئھن او ابناء بعولتھن او اخوانھن او بنی اخوانھن او بنی اخوتھن او نسائھن او ماملکت ایمانھن او االتبعین غیر اولی الاربۃ من الرجال اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورٰت النساء ولا یضربن بارجلھن لیعلم مایخفین من زینتھن وتو بوا الی اللہ جمیعا ایہ المؤمنون لعلکم تفلحون۔( 24 :31 )
یہ سورہ نور کی آیت ہے،یا اللہ! تو قرآن کریم کے انوار ہمارے دلوں میں اتار دے یعنی قرآن پر ایسا عمل ہو کہ دنیا کی کوئی قوت اس کو روک نہ سکے، دل میں نور پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہو جائے کہ اس کے احکام پر عمل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہ روک سکے۔
رسولﷺ کو ارشاد ہوتا ہے: فرما دیجئے مؤمنات سے، یعنی جو عورتیں یہ فرمودہ سننے کو تیار نہیں یا اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں، وہ مؤمنات کی فہرست سے الگ ہیں،اس لئے جو عورتیں مؤمن ہیں آپ ان سے فرمائیں کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،وہ کیسے ہو گی؟ اس طرح کہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، اور اپنے گریبان پر چادر یا دوپٹہ لپیٹ کر رکھا کریں، تاکہ سینہ کا ابھار محسوس نہ ہو اور گریبان پر کہیں نظر نہ پڑے، آگے ایک ایک کر کے گنوا ر ہے ہیں کہ ان کے سوا باقی کسی کے سامنے بھی بے پردہ جانا جائز نہیں، وہ کون ہیں؟(1) شوہر (2) باپ، چچا اور ماموں بھی اس میں داخل ہیں(3)خسر (4) بیٹا، پوتا اور نواسا بھی اس میں داخل ہیں (5) شوہر کا بیٹا، داماد کا بھی یہی حکم ہے،اس لئے کہ اس میں حکم کی علت یعنی حرمت مؤبدہ موجود ہے، یعنی وہ شخص جو ہمیشہ کیلئے حرام ہو اور اس سے کبھی بھی نکاح نہ ہو سکتا ہو، اس سے پردہ نہیں ساس کی حرمت کا ذکر دوسری آیت میں ہے جس کا بیان ان شاء اللہ تعالی آگے آئے گا، (6) بھائی (7)بھتیجا (8) بھانجا (9) مسلمان عورتیں، مسلمان عورتوں کے سامنے تو اپنی زیب و زینت ظاہر کرسکتی ہیں ، کافر عورتوں کے سامنے سر، بازو اور پنڈلی وغیرہ کھولنا حرام ہے۔
بعض مسائل قرآن کریم سے سوچ سوچ کر نکالے جاتے ہیں مگر پردہ کا یہ مسئلہ نکالا ہوا نہیں، یہ قرآن کریم کا صریح حکم ہے۔بتائیے! ہسپتالوں میں اور گھروں میں جو غیر مسلم عورتیں کام کرنے کے لئے آتی ہیں کیا مسلمان عورتیں ان سے بالوں کا پردہ کرتی ہیں؟ کلائیوں کا پردہ کرتی ہیں؟ پنڈلیوں کا پردہ کرتی ہیں؟ گلے گردن کانوں اور سینہ کا پردہ کرتی ہیں؟ خوب سمجھ لیں کہ جو لوگ قرآن کریم کو چوم چوم کر مسجدوں میں رکھ کر یا خوانیاں کروا کر یہ سمجھتے ہیں کہ آفات زائل ہو جائیں گی وہ جب تک قرآن کریم کے احکام کی خلاف ورزی نہیں چھوڑیں گے ہر گز دنیا میں ان کو چین کی زندگی نصیب نہیں ہوسکتی، اگر قرآن کے ساتھ عقیدت ہے قرآن پر ایمان ہے تو اس پر عمل کر کے دکھائیں۔
(10 ) کافر باندی، اس کے سامنے سر اور بازو کھولنا جائز ہے (11 )ایسے مدہوش جن کو عورتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ( 12) چھوٹے بچے جن کو ابھی یہ سمجھ ہی نہ ہو کہ یہ عورت کیا چیز ہے؟ جسے مرد و عورت میں فرق ہی معلوم نہ ہو، آج کل دس دس بلکہ بارہ سال کے بچوں سے بھی پردہ نہیں کیا جاتا، ذرا اپنی حالت سے اندازہ لگائیے کہ آپ کی عمر کتنی تھی جب آپ کو پتا چل گیا تھا؟ پھر اب تو ترقی کا دور ہے اس دور کے دس سال کے بچہ کو ان چیزوں کی وہ خبر ہے جو آپ کے دور کےبیس سال کے جوانوں کو بھی نہ ہوتی تھی یہ وہ دور ہے، مرد و عورت میں کیا فرق ہے ان کے آپس میں کیا تعلقات ہوتے ہیں، کس مقصد کے لئے شادی کی جاتی ہے،یہ دیکھنا چاہئے کہ بچہ کو کس عمر میں ان چیزوں کی سمجھ آگئی، اس عمر سے پردہ کرنا فرض ہے۔ آگے ارشاد ہے:اپنا پاؤں زور سے زمین پر نہ ماریں تاکہ اگر پاؤں میں کوئی زیور ہو تو اس کی آواز باہر سنائی نہ دے، جب عورت کی پا زیب کی آواز کو پردہ ہے کہ اس کی آواز باہر نہ جائے تو خود عورت کی آواز کو کتنا پردہ ہونا چاہئے اور اس کے چہرہ کو کتنا پردہ لازم ہو گا۔
N.W.F.P PAKISTAN