اب سنئے قرآن کیا کہتا ہے
ینسا ء النبی لستن کاحدمن النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا ۔ (33 : 32)
مجھے تو یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید آپ یہ کہیں کہ یہ نہ جانے کیا پڑھ رہا ہے؟ ارے! یہ قرآن میں ہے سورہ احزاب میں ہے۔آج کے مسلمان کے عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ قرآن میں یہ چیزیں ہیں ہی نہیں،اور مولویوں کا یہ حال ہے کہ قرآن کو پڑھتے پڑھاتے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی پڑ گئی کہ اس طرف کسی کی نظر ہی نہیں جاتی کہ یہ بھی قرآن میں ہے،یا اللہ ! تو مدد فرما،ہدایت فرما، لا حول ولا قوہ الا بک، اصل دستگیری صرف تیری ہی طرف سے ہے،اگر تیری دستگیری نہیں ہو گی تو ہمارے کرنے کرانے سے کچھ نہیں ہو گا، تو ہی مدد فرما، ہماری عاجزی پر رحم فرما، ہمارے ضعف پر رحم فرما، ایسے ماحول، ایسے معاشرہ میں یا اللہ ! تو ہی مدد فرما، دستگیری فرما، لوگ آج نزول قرآن سے چودہ سو سال بعد گناہوں میں رات دن دھت اور مست ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے بزرگ ہیں، ہمارے یہاں کسی گناہ کا احتمال نہیں، اور اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں؟
''اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو! جب کسی ضرورت سے دین حاصل کرنے کے لئے کوئی شخص آکر دین کا کوئی مسئلہ پوچھے تو اپنے لہجہ میں نرمی اور لچک پیدا نہ کرو، نزاکت سے بات نہ کرو۔''
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ امہات المؤمنین ؓ جن کا اتنا اونچا مقام ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے ایک پورے رکوع میں ان کی تطہیر اور پاک دامنی کا مقام بیان فرمایا ہے:
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا۔ (33 : 33 )
ان کو اللہ تعالی نے پاک کردیا اور جسں کو اللہ تعالی پاک کر دے کیا اس کے قریب کوئی خباثت ونجاست آسکتی ہے؟کیا ان کے بارے میں یہ گمان ہو سکتا تھا کہ غیر محرم کو جب مسئلہ بتائیں گی تو نزاکت سے بولیں گی؟ یہ بات تو گمان میں بھی نہیں آسکتی ،پھر جس کے بارے میں یہ وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا،خیال بھی نہیں آسکتا اسے روکا کیوں؟ اللہ تعالی روک رہے ہیں کہ نزاکت سے بات نہ کریں، ان سے جب نزاکت سے بات کرنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں تو پھر یہ حکم کیوں فرمایا؟ اس لئے خوب سمجھ لیں اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی آواز میں جو طبعی پیدائشی نزاکت ہوتی ہے اسے خشونت و خشکی سے بدلو،بات آئی سمجھ میں؟ کبھی کسی غیر محرم مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو عورت کی آواز میں جو پیدائشی نزاکت ہے اس سے بھی بچو، آواز میں بتکلف درشتی اور روکھا پن پیدا کرنے کی کوشش کرو، اس زمانہ فساد میں کسی عورت کو مجبوری میں کبھی کسی غیر محرم سے بات کرنا ہی پڑے تو بتکلف ایسا لہجہ بنائے کہ سننے والا یوں محسوس کرے کہ کوئی چڑیل بول رہی ہے۔ بات پوری طرح سمجھنے کے لئے چند چیزیں ذہن نشیں کر لیں:
(1 ) ایک تو یہ کہ امہات المؤمنین ؓ کا اتنا اونچا مقام ہے کہ ان سے گناہ کا وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا، گناہ کا وسوسہ بھی نہیں آسکتا، یہ ''مطہرات''ہیں جن کو اللہ تعالی نے پاک کردیا ہے۔
( 2 ) دوسری بات یہ امت کی مائیں ہیں کہ
اللہ تعالی نے انہیں صرف احتراما امت کی مائیں نہیں فرمایا، بلکہ جس طرح حقیقی ماں کے ساتھ نکاح حرام ہے اسی طرح امہات المؤمنین ؓ بھی امت کے مردوں پر حرام ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ولا تنکحوا ازواجہ من بعد ہ ابدا ان ذلکم کان عند اللہ عظیما۔ (33 : 53)
''رسولﷺ کے وصال کے بعد آ پ کی بیویوں سے تم کبھی بھی نکاح نہیں کرسکتے۔''
جس طرح ماں کے ساتھ کسی حالت میں نکاح نہیں ہوسکتا، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حرام ہے اسی طرح امہات المؤمنین ؓ بھی تا قیامت امت کے ہر فرد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہیں، رسولﷺ کے وصال کے بعد بھی امت کا کوئی فرد آپ کی بیویوں سے نکاح نہیں کرسکتا۔
(3 ) تیسری بات، امہات المؤمنین ؓ سے بات کرنے والے کون تھے؟ حضرات صحابہ کرامؓ جن کا تقویٰ وہ تقویٰ ہے کہ فرشتوں کو رشک آئے، جن کی پاک دامنی کی شہادت اللہ تعالی قرآن کریم میں دیں:
رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔ (58 : 22)
''یہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے ہم راضی اور جو ہم سے راضی۔''
اور فرمایا:
وکلا وعد اللہ الحسنی۔( 4 : 95 )
''سب کے ساتھ ہمارا معاملہ یہ کہ سب کو بخش دیا۔''
(4 ) ان کی آپس میں باتیں کیا ہوتی تھیں؟دینی مسائل سیکھنا سکھانا،
اب ساری چیزیں ملا کر دیکھئے، یہ عورتیں کون ہیں؟ سیّد دو عالم ﷺ کی بیویاں ،جن کو اللہ تعالی نے پاک کردیا ہے، امت کی مائیں ہیں، جو امت کے ہر فرد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہیں،اور مرد کون؟ حضرات صحابہ کرامؓ جیسی مقدس ہستیاں، اور کام کیا؟ دینی مسائل پوچھنا، ایسے موقع پر فرماتے ہیں کہ جب بات ہو تو زنانہ لہجہ میں جو پیدائشی نزاکت ہے اس کو خشکی سے بدلا کرو،پیدائشی نزاکت بھی نہ آنے پائے، یہ تو امہات المؤمنین ؓ کو ہدایت دی، اور حضرات صحابہ کرامؓ کو کیا ارشاد ہوتا ہے:
وا ذاسالتموھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب (33 : 53 )
''جب بھی دین حاصل کرنے کے لئے امہات المؤمنین سے کچھ پوچھنا پڑے تو پردہ کے پیچھے سے پوچھو۔''
سامنے آنے کی اجازت نہیں للہ! غور کیجئے، جن کو یہ حکم دیا جا رہا ہے یہ مرد کون ہیں؟ اور یہ خواتین کون ہیں؟ کسی بزرگ نے تو حسن بصری اور رابعہ بصریہ کا نام لیا تھا،یہاں اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں وہ مقدس عورتیں اور مقدس مرد ہیں، ان کے بارے میں ہدایات دی جا رہی ہے کہ جب دین بھی سیکھنا ہو تو پردہ کے پیچھے سے بات کرو۔
N.W.F.P PAKISTAN