وذکر فان الذکری تنفع المؤمنین۔ (51 ۔55 )
''آپ نصیحت کریں نصیحت مؤمن کو ضرور فائدہ دیتی ہے۔''
اب ذرا سوچا جائے کہ آج کے مسلمان کو قرآن سے نصیحت کیوں نہیں ملتی؟ قرآن کی بات دل میں کیوں نہیں اترتی؟ اللہ تعالی کا فیصلہ تو یہ ہے کہ نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے، اور حقیقت میں فائدہ ہو نہیں رہا، تو سوچا جائے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اللہ تعالی کا ارشاد غلط تو ہو نہیں سکتا، پھر فائدہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں:
(1) یا تو جو بات کہی جا رہی ہے وہ نصیحت ہی نہیں، یعنی کہنے والے میں اخلاص نہیں ، اگر کہنے والا اللہ تعالی کے لئے نہیں کہہ رہا، اس میں فکر آخرت نہیں، قلب میں درد نہیں، ویسے ہی رسم و رواج کے طور پر، دستور کے طور پر یا دکھلاوے کے لئے کہہ رہا ہے، تو اس کا کہنا نصیحت نہیں، اس لئے اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
(2) یا سننے والے مؤمن نہیں ، نصیحت مؤمنین کو فائدہ دیتی ہے، اور صرف انہی کے دلوں پر اثر کرتی ہے،جس میں ایمان نہیں اس پر نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی، سننے والوں میں ایمان کامل ہو، توجہ ہو ، آخرت کی فکر ہو،ایمان کی خاطر سننے بیٹھے ہوں تو نصیحت فائدہ دے گی ، اگر ان میں عمل کرنے کا ارادہ نہیں، طلب نہیں ، تڑپ نہیں تو نصیحت فائدہ نہیں دے گی۔
N.W.F.P PAKISTAN