میری اس تقریر پر کہ دل کی رغبت پر بھی مواخذہ ہے ، شاید کسی کو اشکال ہوا ہو کہ دل کی رغبت تو غیر اختیاری ہے، اس پر مواخذہ اور عذاب کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دل کی رغبت کے اسباب و مقدمات اختیاری ہیں ، اس لئے یہ رغبت بھی اختیاری ہی کے حکم میں ہے ، دل کی شہوت کے اسباب و مقدمات جو اختیاری ہیں ان کی تفصیل یہ ہے :
( 1 ) غیر محرم کو قصداً دیکھنا ۔
( 2 ) غیر محرم پر ابتداء غیر ارادی نظر پڑی مگر نظر کو فوراً ہٹایا نہیں بلکہ قصد اً دیکھتا رہا۔
( 3 ) غیر ارادی نظر کو فوراً ہٹا لیا مگر دل میں اس کے خیال کو قائم رکھا ، یعنی قصد اً سوچتا رہا ۔
( 4 ) بدوں دیکھے غائبانہ ہی غیر محرم کا تصور قصد اً دل میں لا کر اس سے لذت حاصل کر رہا ہے ۔
یہ چاروں چیزیں اختیاری ہیں ، اس لئے حرام ہیں ۔
البتہ اگر کسی غیر محرم پر غیر ارادی طور پر اچانک نظر پڑ گئی اور اس کو فوراً ہٹا لیا اس کے باوجود غیر اختیاری طور پر اس کا اثر دل پر ہو گیا ، اسے قصداً دل میں بٹھایا نہیں اور اپنے اختیار سے نہیں سوچ رہا بلکہ گندے خیال کو دل سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے ، اس پر کوئی مواخذہ نہیں ، خواہ یہ خیال آکر فوراً نکل جائے یا بلا اختیار بار بار کھٹکتا رہے ، دونوں صورتوں میں کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ اس کو قصداً نہ سوچے ۔
N.W.F.P PAKISTAN