ایسی حالت میں فکر ہونی چاہئے اور کسی سے نسخہ دریافت کرنا چاہئے ، گھر بیٹھے بیٹھے کام نہیں ہوتا ، جہاں کسی گناہ کی طرف التفات ہو ، توجہ ہو ، رغبت ہو ، فورا کسی باطنی ڈاکٹر کے پاس پہنچا جائے ، کسی دینی طبیب کے پاس جا کر اپنے حالت بتائے جائیں اور نسخہ حاصل کیا جائے
نفس نتوان کشت الا ظل پیر
دامن این نفس کش راوامگیر
نفس کو شرارتوں سے روکنا ، اس گھوڑے کو لگام دینا ، یہ سوائے کامل کی صحبت کے نہیں ہو سکتا ، کسی کامل کی صحبت اختیار کی جائے اور اپنے حالات بتائے جائیں ، نسخے حاصل کئے جائیں ، ان نسخوں کو استعمال کیا جائے ، اور پھر بعد میں یہ بھی بتایا جائے کہ ان نسخوں سے فائدہ ہوا یا نہیں ؟ اگر ہوا تو کتنا فائدہ ہوا ؟ جسمانی علاج کے لئے ڈاکٹر سے پہلے تو وقت لینا پڑتا ہے ، وقت لینے کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے ، بہت بھاری فیس دینی پڑتی ہے ، پھر وہ تھوڑا سا وقت دیتے ہیں ، اور پھر جب دوبارہ دکھانا ہو تو پھر نئے سرےسےگھنٹوں قطار میں کھڑے رہیں،
اورفیس بھی دوبارہ دیں،چند منٹوں میں ہزاروں روپے جیب میں ڈال لئے پھر مریض تندرست ہو یا نہ ہو، لیکن باطن کے ڈاکٹر مریضوں سے کوئی فیس نہیں لیتے اور نہ ہی ان کے ہاں مریضوں کو قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے، مریضوں پر ان کی شفقت و محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کی دنیاوآخرت بنانے کے لئے رات دن محنت کر رہے ہیں،پھر ان کے نسخے ایسے اکسیر کہ ان کے استعمال سے صحت یقینی ہے،یہاں ناکامی کے وہم و گمان کا بھی کوئی گذر نہیں ،باطنی ڈاکٹر سرکاری ملازم ہیں،اس لئے یہ مریضوں سے تو کوئی فیس نہیں لیتے مگر ان کی تنخواہ سرکاری خزانہ سے ہے،یہ بڑی سرکار(اللہ تعالی)کے درباری لوگ ہیں، اس خزانہ سے ان کو کیا کچھ ملتا ہے؟بس کچھ نہ پوچھئے،اس سے اندازہ لگائیں کہ جس دربار میں ذرا سی بات پر خزانے بہا دئیے جاتے ہیں وہاں اتنی محنت کرنے والوں کے لئے کیا کچھ ہو گا،یہ سرکاری ڈاکٹر ایسے ہیں کہ ان کے پاس جانے والے مریض بھی سرکاری بن جاتے ہیں اور سرکاری خزانہ سے ان کا وظیفہ جاری ہو جاتا ہے،یہ لوگ ایک سیکنڈ میں کروڑوں کماتے ہیں،اگرانسان اللہ تعالی کی طرف لگ جائے، آخرت کی فکر پیدا کر لے، وہاں کی دولت کمانے کی فکر ہو جائے، توچند سیکنڈ میں کروڑوں کما لے، کیا فرمایا:۔
کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان اللہ و بحمدہ (رواہ البحاری)
کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم البحاری)
یہ رسولﷺ کے کلمات ہیں، کیا پیارے کلمات ہیں، کیا ہی پیاری زبان ہے،فرمایا دو کلمے زبان پر بہت ہی ہلکے ہیں مگر ترازو میں بہت وزنی،وہاں جب اعمال کا وزن ہو گا تو ترازو میں یہ دو کلمے بہت وزنی ہوں گے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ یہ دو کلمے رحمن کو بہت ہی محبوب ہیں، تو جس زبان پر یہ کلمے جاری ہوں گے وہ زبان ان کو محبوب ہو گی یا نہیں؟اور جس جسم میں وہ زبان ہو گی وہ محبوب ہو گا یا نہیں؟یہ دو کلمے کیا ہیں؟
"سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم "
ان کے ادا کرنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟صرف تین سیکنڈ،میں نے گھڑی میں دیکھا تجربہ کے بعد بتا رہا ہوں، اور فرمایا
لاحول ولا قوۃ الا باللہ کنز من کنوز الجنۃ(مسند احمد)
ایک بار لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنے سے جنت کے خزانوں میں سے بہت بڑا خزانہ مل جاتا ہے، یہ کلمہ کہنے میں بھی صرف تین سیکنڈ صرف ہوتے، تین سیکنڈ میں اتنا بڑا خزانہ، پھر یہ خزانہ بھی جنت کا ہے، جس کا حال یہ ہے کہ اگر اس دنیاجیسی ہزاروں دنیا پیدا کردی جائیں تو وہ جنت کی ادنی سے ادنی نعمت کے برابر بھی نہیں ہوسکتیں، مگر یہ خزانے جب ملیں گے کہ یہ کلمے کچھ ذرا دل میں بھی اتریں یعنی گناہوں کو چھوڑا جائے اگر آپ گناہوں کو نہیں چھوڑتے اور یہ کلمات کہہ لئے تو ایسا ہو گا جیسے شہد کی بھری ہوئی بوتل میں چند قطرے سنکھیا کے ملا دیں، فورا اثر ختم ہو جائے گا بلکہ سب زہر بن جائے گا۔
میں بتاتا رہتا ہوں کہ جب انسان باہر نکلتا ہے تو اگر کسی ناجائز چیز کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اس نے اللہ تعالی کے خوف سے نظر نیچی کرلی تو یہ اتنا بڑا مقام ہے اور اس سے اتنے درجات قرب حاصل ہوتے ہیں کہ ہزاروں سال کے نوافل سے یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا، جب ایک گناہ چھوڑنے پر اور گناہ کے تقاضے کے وقت اس سے بچ جانے پر اتنا بڑا مقام حاصل ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کی فکر ہونی چاہئے۔ اگر فکر پیدا ہو جائے تو پھر ہر معاملہ میں اللہ تعالی کی ہدایت ملتی ہے اور جب فکر ہی نہ ہو تو ہدایت زبردستی نہیں ملتی۔
ان بزرگ کے دل میں اللہ تعالی کا خوف تھا،غلطی کر بیٹھے، اجازت دے دی کہ ہاں! باندی چھوڑ جاؤ، مگر جہاں گناہ کا تقاضا پیدا ہوا فورا علاج کی فکر ہوئی، اب تلاش کرنے لگے کہ کس کے پاس علاج کیلئے جاؤں؟ اس کے لئے بھی تلاش کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ ہر کس وناکس کے پاس چلے جاؤ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:۔
الرحمن فاسئل بہ خبیرا ( 25 : 59 )
'' رحمن کی شان کسی با خبر سے پوچھئے''
باخبر کو ن ؟ یہ مضمون بہت طویل ہے آج بیان نہیں ہو گا، کچھ علامات ہیں،دلائل ہیں،حالات ہیں،جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ شخص باخبر ہے، یہ علاج کرسکتاہے، دوسروں سے علاج نہیں ہو گا،ان بزرگ نے تحقیق شروع کی کہ اس مرض کا علاج کہاں ہو سکتا ہے؟ اس کی تڑپ پیدا ہو گئی،کسی نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک بزرگ ہیں ان کے پاس جاؤ، وہاں پہنچے، اس شہر میں جا کر ان کا نام بتا کر معلوم کیا،کسی نے کہا
''ارے!کہاں جا رہے ہو؟وہ تو بہت بڑا بد معاش ہے''
یہ بیچارے بہت پریشان ہوئے، جس نے بھیجا تھا اس سے آکرشکایت کی کہ آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا؟ وہ بولے لوگ کچھ بھی کہیں بہر حال آپ ان کے پاس ضرور پہنچیں،پھر گئے،تو بتایا گیا کہ فلاں شرابیوں کے محلہ میں ان کا مکان ہے، وہاں پہنچے، مکان میں اندر گئے تو دیکھا کہ شراب کا پیالہ سامنے رکھا ہوا ہے،ایک حسین لڑکا بھی پاس بیٹھا ہوا ہے،چونکہ ان کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ بڑے بزرگ ہیں،اور قلب میں بھی محسوس ہوا کہ ہاں! یہ کچھ ہیں،جو خود صاحب دل کو پہچان لیتا ہے،پوچھا:حضور! یہ سامنےپیالہ میں کیا ہے؟فرمایا شربت ہے،رنگ شراب کا تھا لیکن تھا شربت،پھر پوچھا:یہ لڑکا کون ہے؟فرمایا یہ میرا بیٹا ہے،پھر پوچھا:آپ نے شرابیوں کے محلہ میں کیوں رہائش اختیار کی؟انہوں نے فرمایا کہ شروع میں جب میں اس مکان میں آیا تھا اس وقت یہ محلہ شرابیوں کا نہیں تھا،بعد میں لوگ شرابی بن گئے،مجھ پر شرعا واجب نہیں کہ میں اپنا مکان بیج کر یہاں سے چلا جاؤں ،اب ان صاحب نے پوچھا کہ آپ نے اپنی ظاہری صورت ایسی کیوں بنا رکھی ہے کہ دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کوئی بد معاش ہے؟ان پر ان کی حالت منکشف ہو چکی تھی، فرمایا کہ میں نے خود کو اس لئے ایسا بنا رکھا ہے تاکہ مرید اپنی باند یاں میرے پاس نہ چھوڑ کرجایا کریں۔
N.W.F.P PAKISTAN