انہوں ں نے اس طرح سے احتیاط کی،ورنہ اصل شرعی مسئلہ یہ ہے کہ بد ظنی کے موقع سے بچنا فرض ہے،اپنے آپ کو ایسا بنانا جائز نہیں کہ لوگوں کو بد گمانی ہو،مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان کا قلب مضبوط ہونا چاہئے،کسی کی مروت میں آکر ایسا کام ہرگز نہ کرے جس سے اپنے دین پر خطرہ کا کوئی بعید سے بعید امکان ہو،ثابت قدمی سے کام لے اسی لئے تو فرمایا
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاران کعبہ یک دل بہتر است
دل پہ وہ ضابطہ ہو کہ چاہے مرید منت سماجت کرے ، خواہ ماں ہو ،باپ ہو، بہن ہو ،بھائی ہو، بیوی ہو،شوہر ہو، حاکم ہو،دنیا کا کوئی فرد بھی ہو،جس کی بات ما ننے سے دین پر خطرہ ہو تو کسی کی مروت میں ہر گز ایسا کام نہ کرے، بلکہ اپنے مالک حقیقی ، محبوب حقیقی کی طرف متوجہ ہو کر یوں کہہ دے
اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری
جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری
اگر میرا اللہ مجھ سے ناراض ہو اور دنیا والے سب راضی ہو جائیں تو بال برابر مجھے فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور اگر میرا اللہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہوتی رہے، میرا اس میں کچھ نقصان نہیں، قلب میں قوت ہونی چاہئے، اور قلب میں قوت جب پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ محبت کا وہ تعلق پیدا ہو جائے جس کے سامنے پوری دنیا کے تعلقات نیست و نابود ہو جائیں، قلب میں یہ قوت ہونی چاہئے کہ اگر کوئی مرید باندی واندی چھوڑ نے آئے تو اس سے بچنے کے لئے اپنا ظاہر بگاڑنے کی ضرورت نہیں،
صاف کہہ دے ارے! تیری باندی کو بچا نے کے لئے میں اپنے دین کو خطرہ میں ڈالوں اور اپنی آخرت برباد کر لوں، مجھ سے یہ نہیں ہو گا،تمہاری آخرت سنوارنے کے لئے میں اپنی آخرت بر باد نہیں کرسکتا، کسی کی جوتی کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی گنوا دینا عقل کی بات نہیں ہے، جب کسی کی مروت میں آکر اللہ تعالی کے حکم کے خلاف عمل کیا جا تا ہے اس پر یہ وبال پڑتا ہے، اس قصہ سے کیا ثابت ہوا؟ وہ بزرگ تھے، متقی تھے، اسی لئے تو فکر پیدا ہوئی مگر انہوں نے اپنے نفس پر اعتماد کیا کہ باندی پاس رکھنے سے مجھ پر کوئی خطرہ نہیں، بس نفس پر اعتماد کرنے کی وجہ سے یہ وبال آیا، اللہ تعالی نے دکھا دیا کہ دیکھو! تمھیں اپنے تقوی پر ناز کیوں پیدا ہوا؟ اب ذرا ان لوگوں کی حالت کا اندازہ لگائیے جو یوں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو کوئی خطرہ نہیں، خطرے سے غافل رہنا سب سے بڑا خطرہ ہے۔
N.W.F.P PAKISTAN