ولایاتین ببہتان۔
''کسی پر بہتان نہیں لگائیں گی''۔
سوچئےکہ کیا آپ خانہ زادرسوم اورخودساختہ بدعات کودین اسلام میں داخل کر کے اللہ تعالی اوراس کےرسولﷺ پر بہتان نہیں لگا رہے؟اس کی تفصیل میرے وعظ"' بد عات مروجہ میں دیکھیں ، جب کسی انسان پر بہتان لگانا جائز نہیں ،اور یہ ایساسخت جرم ہے کہ اس سےبچنے پر بیعت لی جا رہی ہے تو غور کیجئے کہ اللہ تعالی اوراس کےرسول ﷺ پر بہتان لگانا کتنا بڑا جرم ہو گا؟
شرک کے بعد چار باتیں گنوا کر آگے ایک قاعدہ بیان فرما دیا:
ولایعصینک فی معروف۔
''کسی نیک کام میں آپ کے خلاف نہیں کریں گی۔''
آپ کا جو حکم بھی ہوگااس کوتسلیم کریں گی۔
میں بیعت ہونے والے کو پہلے کفر، شرک ، بدعت، اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرواتا ہوں ، پھر نماز، زکوٰۃ ، حج ادا کرنے کا وعدہ لیتا ہوں، اس کے بعد یہ وعدہ لیتا ہوں کہ ''میں پوری زندگی شریعت کے مطابق گذاروں گا ''اس زمانے کامسلمان جہادسےبہت ڈرتا ہے،لمبے لمبے وظیفے تو پڑھ لے گا مگر جہاد کے تصور سے بھی جان نکلتی ہے،اس لئے میں بوقت بیعت یہ وعدہ بھی لیتا ہوں:
''اگر اللہ کی راہ میں جان یا مال د دینے کا موقع پیش آیا تو بخوشی دوں گا۔''
اگر کوئی صدق دل سے یہ وعدہ کرتا ہے اور اس پر قائم رہتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے ،انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے دستگیری ہوتی ہے، مدد ہوتی، وہ آخرت کے لئے کوشش کرنے والے کو کبھی محروم نہیں فرماتے۔
رسولﷺ سے جو خواتین بیعت کی درخواست کرتی تھیں ان کے لئے آخری جملہ بیعت میں وعدہ لینے کا یہ ہوتا تھا کہ کسی بات میں بھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گی، جوخواتین رسولﷺ پرایمان کا دعوی کرتی ہیں وہ آپ کی بیعت میں شامل ہو جاتی ہیں، رسولﷺ سے بیعت ہو گئیں، پھر بیعت ہونے کے بعد کہتی ہیں ،کہ جی!پردہ کرنا تو بڑا مشکل ہے، فلاں گناہ چھوڑنا تو بڑا مشکل ہے، مسلمان بنناتو بڑا مشکل ہے ، اگرمسلمان بننا بڑا مشکل ہے تو اس مشکل کام کو چھوڑ دیجئے، کون کہتا ہے کہ آپ مسلمان بنیں، اسلام کو چھوڑ دیجئے، اسلام کوتو نہیں بدلاجاسکتا، اسلام تو وہی رہے گا جو اللہ تعالی نے رسول ﷺ پر نازل فرمایا ، اس کاقانون نہیں بدل سکتا،اگر کسی کو یہ اسلام مشکل لگتا ہے تو چھوڑ دے، اس کومسلمان رہنے کی کیامجبوری ہے ؟جودین بھی آسان لگتا ہے وہی دین اختیار کر لے ۔
یا مکن با پیل بانان دوستی
یا بنا کن خانہ برا انداز پیل
''یا تو ہاتھی والوں سے دوستی مت رکھو ، یا پھر مکان اتنا بڑا تو بناؤ کہ جس میں ہاتھی سماسکے۔''
ان کے ساتھ دوستی ہے تو نبھانے کے طریقے سوچو۔
لمبی چوڑی بات سے کیا فائدہ؟دو ٹوک بات کرو، دو کاموں میں سے ایک کام کرلو، دوغلاپن صحیح نہیں ، یا تو اپنا بدن دوست کی رضا میں فنا کردو، دوست کا جو حکم ہو اس پر اپنے آپ کو مٹا دو''مردہ بدست زندہ''بن جاؤ۔ مردہ کو زندہ لوگ الٹیں پلٹیں،جیسے جی چاہے کریں، دوست کی ر ضاپر اپنی خواہشات کو قربان کردو، مکمل مسلمان بن جاؤ،کوئی اپنی خواہش باقی نہ رہے،اپنے آپ کو اس دوست کے سپردکردو،اور اگرایسا نہیں کرسکتے تو محبت کا دعوی چھوڑ دو، محبت کا دعوی کر کے حکم کے خلاف کرنانفاق ہے، بچپن میں جب مجھے پوری طرح ہوش بھی نہیں آیا تھا ایک شعر کہیں سےسن کر یاد ہو گیا تھا اور وہ میں بہت پڑھا کرتا تھا-
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ھوجا یا پھر سنگ ہو جا
دوغلاپن چھوڑ دیجئے،یاتو موم بن جائیے اور اگر موم بننے کو تیار نہیں تو پتھر بن جایئے ۔
احسب الناس ان یترکواان یقولوا اٰمناوھم لا یفتنون ۔ولقد فتناالذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکذبین(29 : 1 تا 3 )
''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا؟اور ہم تو ان لوگوں کو آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں سو اللہ تعالی ان لوگوں کو جان کر رہے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا -
قالت الااعراب امنا قل لم تو منو اولکن قولو اسلمنا ولمایدخل الایمان فی قلو بکم (49 :14 )
ایمان کا دعوی کرنے والے تو بہت ہیں '' فرمایا '' بہت سے لوگ کہتے ہیں : امنا '' وہ غلط کہتے ہیں'' جھوٹ بولتے ہیں '' مومن کون ہوتے ہیں
وما کان لمو من ولا مومنۃ اذاقضی اللہ ورسلہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم من یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا'' (33 : 36 )
'' کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کیلئے کوئی گنجائش نہیں کہ جہاں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ آجائے پھر وہ اسے قبول نہ کرے ''
یہاں صرف ''مومن '' پر اکتفاء نہیں فرمایا ، تاکہ مومن عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ یہ تو مردوں کو کہا گیا ہے ہم تو آزاد ہیں ، ہمارے لئے کچھ نہیں ہے ،اس لئے خاص طور پر صراحت کے ساتھ فرمادیا کہ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے کوئی گنجائش نہیں کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ نے کوئی حکم دے دیا تو پھر بندہ کا اپنا اختیار بھی کچھ اس میں ہو، ان کو کوئی اختیار نہیں ،جو حکم ہو گا اس پر عمل کرنا ہو گا اور جو نہیں کرتا وہ سخت گمراہ ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما۔ (4 : 65 )
کیسا ظالم انسان ہے کہ اللہ تعالی کو بھی قسم کھلا رہا ہے ، اللہ تعالی جانتے ہیں کہ میں نے جن بندوں کو پیدا کیا وہ ایسے نالائق ہوں گے، ایسے نالائق ہوں گے ان کو سمجھانے کی خاطر مجھے قسمیں بھی اٹھانا پڑیں گی، ''فلا وربک''ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، تیرے رب کی قسم! ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا، قسم کھا کر اللہ تعالی نے فرمایا، کیا؟ کبھی کوئی فرد ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا خواہ وہ کچھ بھی کہتا رہے ، اسلام کے کیسے ہی دعوے کرتا رہے، مسلمان ہوں ، مسلمان کا بیٹا ہوں، آج کا مسلمان''عبدالرحمن''سے''رحمن''بن گیا ہے، یہ اچھی ترکیب سوچی ہے،''عبدالرحمن''کہلاتا ہے تو پھرتو کام کرنے پڑیں گے نا، اس لئے''عبد''اتار دو''رحمن''بن جاؤ اب یہ خود ''رحمن''بن گیا ہے خود اللہ بن گیا ہے،اب اس کی حکومت ہے، معاذ اللہ! اللہ بھی اس کا بندہ بن گیا ہے۔ ایک شخص کا نا م '' عبدا اللہ'' تھا ، وہ ٹیلیفون پر بتاتا تھا کہ '' اللہ بو ل رہا ہو ں ''سب ایسے ہی ،'' روف صاحب'' ''حق صاحب'' شکو ر صاحب ''اور اگر کسی نے بہت ہی ر عایت کی تو کیا ہوا؟ ا ے رحمن'' بن گئے، یعنی '' عبد ''بننے میں ذلت ٘محسوس کر تا ہے ، '' عبد'' کے معنی ہیں '' بند ہ اور بند ہ کے معنی ہیں '' غلام '' احکام کوتسلیم کرنے والا اس کو بندہ بننے میں، احکام تسلیم کرنے میں اللہ تعالی کا غلام بننے میں ،اللہ تعالی کے سامنے ذلیل ہونے میں عارآتی ہے، جب اللہ تعالی کا حکم نہیں مانتا تو''رؤف''بھی خود ہی بن گیا، ''رحیم''بھی خود ہی بن گیا ''رحمن''بھی خود ہی بن گیا''عظیم''بھی خود ہی بن گیا، اور اگر کسی نے کہا کہ ارے! کیا کہہ رہے ہو تم اللہ نہیں ہو، تو کہتے ہیں میں تو''اے رحمن''ہوں ''عبد الرحمن '' کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالی کا بندہ نہ بن جائے ، اللہ تعا لی کا بندہ بن گیا تو مصیبت آ جا ئے گی ، '' عبدالرحمن '' کبھی نہیں کہے گا ، والد ین نے تو بندہ بنانے کی کوشش کی مگر یہ بندہ بننا نہیں چاہتا ، اللہ کے بند و ! آیندہ ایسا نام کبھی نہ رکھنا'' عبد '' والا نام رکھنا چھوڑ دیجئے ، نتیجہ سامنے ہے ، نام '' عبد الرحمن '' رکھتے ہیں وہ رحمن بن جا تا ہے ۔ ایسے نام رکھنے ہی نہیں چا ہئیں جن کا نتیجہ برا ہو۔
N.W.F.P PAKISTAN